Scratchpad
Advertisement

اصل روحانیت کیا ہے؟[]

Qalb

پیٹ میں نطفہ انسانی کے بعد خون کو اکٹھا کرنے کیلئے ابتداً روح جمادی آتی ہے پھر روح نباتی کے ذریعے بچہ پیٹ میں بڑھتا ہے چار ماہ بعد روح حیوانی جسم میں داخل کی جاتی ہے۔ جس کے ذریعے بچہ پیٹ میں حرکت کرتا ہے ان کو ارضی ارواح کہتے ہیں۔ پھر پیدائش کے بعد روح انسانی دوسری مخلوقات جنہیں لطائف بھی بولتے ہیں کے ساتھ آتی ہیں انہیں سماوی ارواح کہتے ہیں ۔یہی لطائف وسیلہ علم و عقل اور وسیلہ باریا بی انوار مولیٰ ہیں ورنہ خالی دل اور گوشت حیوانوں میں بھی ہوتا ہے۔ یہ لطائف سینے میں اپنا مسکن بنا لیتے ہیں ان پانچ لطائف کے مختلف نام ہیں ۔ پہلا لطیفہ قلب دوسرروح تیسرا سری چوتھا خفی جبکہ اخفی پانچواں لطیفہ ہے ان پانچوں لطائف کا تعلق پانچ اولالعزم رسولوں سے ہے ان پانچوں لطائف کا باطنی علم بھی انہیں پانچوں نبیوں کو عطاہوا۔ لطیفہ قلب کا علم حضرت آدم علیہ السلام،لطیفہ روح کا علم حضرت ابراہیم عیلہ السلام، لطیفہ سری کا علم حضرت موسیٰ علیہ السلام، لطیفہ خفی کا علم حضرت عیٰسی علیہ السلام اور لطیفہ اخفی کا علم حضرت محمد ﷺ کو حاصل ہوا۔ ہر لطیفے کا آدھا علم نبیوں سے ولیوں تک پہنچا اس طرح اس کے دس حصے بن گئے پھر ولیوں سے خاص لوگ اس علم سے مستفیض ہوئے اس علم کا ظاہر کتاب میں ہے جس کے تیس حصے ہیں علم باطن بھی نبیوں پر وحی کے ذریعے حاصل ہوا اسی وجہ سے اسے بھی باطنی قرآن بولتے ہیں بعد میں یہ علم سینہ بہ سینہ ولیوں میں چلتا رہا اب کتب کے ذریعے عام کردیاگیا ہے۔ یہ لطائف ہر انسان میں ہوتے ہیں بہت سے مسلمان ان لطائف کے نام سے بھی بے خبر ہیں بہت سے جانتے ہیں مگر کام سے بے خبر ہیں ان باطنی مخلوقات یعنی لطائف کو حرکت میں لانے کیلئے ان کے علیحدہ علیحدہ ذکر وفکر ہیں یہ ذکر کے نور کی ضربوں سے جاگتے ہیں نوری غذا نہ ملنے پر یہ سینے ہی میں ضائع ہوجاتے ہیں آیتوں اور صفاتی اسماءکی تکرار سے صفاتی نور بنتا ہے جو بلواسطہ ہے جبکہ اللہ کے ذاتی نام کی تکرار کے نور کی پہنچ ذات تک ہے جو بلاواسطہ ہے ان کا تفضیلی ذکر ہماری کتابوں میں موجود ہے یہی ذکر اذکار باطنی علم کی ابتداءہیں اور روحانیت کا پہلا درس۔


مراقبہ کیا ہوتا ہے۔؟[]

روحوں کی طاقت کونور سے یکجا کرکے کسی مقام پر پہنچ جانے کا نام مراقبہ ہے ۔ نبی کا ہر خواب مراقبہ یا الہام وحی صحیح ہوتا ہے جبکہ ولی کے 100 میں سے چالیس خواب۔ مراقبے یا الہامات صحیح ہوتے ہیں جن کا نفس پاک اور قلب صاف ہوچکے ہوں مراقبہ ان انتہائی لوگوں کا کام ہے جبکہ عام لوگوں کا مراقبہ نادانی ہے۔


آپ کی تعلیمات کیا ہیں، اور کون لوگ آپ کی مخالفت پرکمر بستہ ہیں؟[]

ہم بلا تفریق رنگ و نسل اللہ کی محبت کا درس دے رہے ہیں، ہمارا پیغام ہے کہ جس دل میں اللہ کی محبت نہیں اس انسان کا وجود ہی بیکار ہے۔اللہ سے محبت کے بعد انسانی برائیاں آہستہ آہستہ ختم ہوجاتی ہیں ۔ ہمیں اس مشن میں نام نہاد دین کے ٹھیکیداروں کی مخالفت کا سامناہے ان کی مخالفت سبب ان کا اپنا حسد اور تکبر ہے، جن لوگوں کو واقعی اللہ سے محبت ہوجاتی ہے وہ ہمارے ساتھ تنمن دھن سے لگ جاتے ہیں او ردوسروں کو بھی راہ ہدایت دیتے رہتے ہیں، مولوی خیالی جنت دکھاتا ہے جبکہ اللہ والے اللہ سے محبت کی طرف مائل کرتے ہیں ،جب اللہ سے محبت ہوجاتی ہے تو اللہ حقیقی جنت اور مقام دنیا ہی میں دکھادیتا ہے، مولوی شریعت ہی کی تعلیم دے سکتے ہیں جبکہ ہمارا علم طریقت ،حقیقت ، معرفت سے بھی آگے کا ہے،پہلے اسم ذات اللہ جنگلوں میں قسمت سے ملتا تھا لیکن اب گھر بیٹھے مل رہا ہے۔


آپ بغیر کلمہ پڑھائے روحانیت کے ذریعے اللہ تک رسائی کا دعویٰ کرتے ہیں، کیا یہ اسلام کے منافی نہیں ہے؟[]

خدا کی طرف دو راستے جاتے ہیں ایک راستہ دین سے ہو کر جاتا ہے اور دوسرا راستہ عشق اور محبت کا راستہ ہے، دین کے ذریعے جو راستہ جاتا وہ اس طرح ہے جس طرح کوئی گاڑی شہر سے ہو کر گزرے، شہر سے گزرنے کی وجہہ سے اس پر بہت سے قوانین لاگو ہوجاتے ہیں راستے میں سگنل بھی آتے ہیں اور اسٹاپ بھی آتے رہتے ہیں ،ٹریفک کی پوری پابندی کرنی پڑتی ہے اور گاڑی بھی ایک سلیقہ سے چلانی پڑتی ہے۔ خدا کی طرف جانا دوسرا راستہ عشق و محبت کا راستہ ہے بالکل اس طرح جیسے کوئی گاڑی شہر میں داخل ہوئے بغیر ہی اپنی منزل کی طرف رواں د واں ہے اس پر شہر کے قوانین بھی لاگو نہیں ہوتے اور ہو شہرکے قوانین پر عمل کیے بغیر ہی اپنی منزل کی طرف گامزن رہتی ہے ایسے راستے کو بائی پاس کہتے ہیں لیکن ہی راستہ ان لوگوں کے لیے ہے جن کو اللہ اس راسے کے چن لے،اس کی دو مثالیں ہیں ایک وہ چور جو حضور غوث پاک رحمتہ اللہ علیہ کے گھر چوری کی نیت سے داخل ہوا اور قطب بن گیا اور ایک حضرت ابو بکر حواری رحمتہ اللہ علیہ جو بہت بڑے ڈاکو تھے،مائیں بچوں کو ان کا نام لے کر ڈرایا کرتی تھیں وہ ایک ہی رات میں ولی بن گئے نہ ان لوگوں نے نماز پڑھی روزے رکھے تھے اور نہ ہی یہ لوگ پرہیزگار تھے بس کامل نظروں نے ان کو صاف کردیا اور وہ ولی بن گئے، انسان کے لیے قانون ہے کہ خدا تک پہنچنا ہے تو مذہب کے ذریعے جائے لیکن خدا کے لیے کوئی قانون نہیں وہ جس کو چاہے بغیر مذہب گھی اپنے پاس بلاسکتا ہے اس نے اصحابِ کہف کو کتے کو چاہا تو وہ بھی حضرت قطمیر بن گیا اس کتے نے کون سی عبادت و ریاضت کری تھی،اس کا کون سا مذہب تھا یعنی وہ ہر چیز پر قادر ہے اگر وہ چاہے تو بغیر مذہب کے بھی کسی کو اپنا بناسکتا ہے ، اللہ تو سب ہی کا ہے کوئی اسے رام پکارتا ہے اور کوئی رحیم کہتا ہے لیکن وہ نہ تو مسجد میںملتا ہے ارو نہ مندر میں ہوتا ہے وہ تو بندہ مومن کے دل کے اندر رہتا ہے،جس نے اس کو پایا من کے اندر سے پایا اور محبت کا تعلق بھی دل سے ہے زبان سے کچھ اور دل سے کچھ اور ہی منافقت ہے اگر اللہ سے محبت کرنی ہے تو پھر دل سے اللہ اللہ کرنی پڑے گی پھر نور دل میں اکٹھا ہوجائے گا اور خون میں داخل ہوتا ہے ان روحوں کو جن کو ہندو شکتیاں بولتے ہیں وہ اس نور کو غذا کے طور پر کھائیں گی اور پھر جسم سے باہر نکلیں گی ،اللہ کو دیکھنے کے قابل ہوسکیں گی یہ ایک دوائی ہے ٹیکے کی مانند جب دل اللہ اللہ کرتا ہے تو اندر چمک جاتا ہے اور آتمائیں (روحیں)بھی چمک جاتی ہیں اور اللہ (بھگوان)کی محبت بھی دل میں بڑھ جاتی ہے زبان سے تو اللہ (بھگوان) سے محبت نہیں ہوتی محبت کا تعلق تو دل سے ہے اللہ کا گھر دل ہے اور دل میں وہ اس وقت تک نہیں آتا جب تک دل پاک اور صاف نہ ہوجائے اور دل اسی وقت صاف ہوگا جب اس کو صاف کرنے کی کوئی دوا لگے کی اور وہ یہ ہے کہ تمہارے دل میں پیدا کرنے والے کی محبت آجائے،کوئی اسے رام بولتا ہے کوئی ایشور بولتا ہے کوئی گاڈ، مگر اس کا ذاتی نام اللہ ہے اور وہ اللہ نہ مسجد میں رہتا ہے نہ مندر میں وہ تو بندے کے من رہتا ہے اگر تم اس کو ڈھونڈنا چاہتے ہو تو من میں ڈھونڈو یہ جسم تو مٹی کا ہے اس کو یا تو جلا دیا جاتا ہے قبر کے اندر مٹی میں مل جاتا ہے پھر جنت ، دوزخ کس چیز کو ملے گی وہ تمہاری روحوں کو ملے کے جو جسم کے اندر ہیں، مسلمان ان کو لطائف بولتے ہیں اورہندوان کو شکتیاں بولتے ہیں اگر تم ان کو جگانا چاہتے ہو تو تو پھر دل سے اس پیدا کرنے والے کی پوجا ،عبادت کرو گے تو پھر اس دل میں اس کا نام لینے سے نور بنے گا وہ نور پھر ان شکتیوں کوملے گا پھر تم سورہے ہو گے تو وہ روحیں اس اللہ اللہ کے نور سے طاقتور ہو کر اس پیدا کرنے والے کو دیکھنے کے قابل ہوجائیں گی، مذہب جسم کا ہے روحوں کا مذہب ہیں ہے،جب انسان مرتا ہے تو مذہب یہیں رہ جاتا ہے کسی کی روح اگر روحانی ہے تو آگے یعنی عالمِ بالا میں چلی جاتی ہے وہاں مذہب نہیں ہے ایسی روحیں وہاں ایک ہوجائیں گی کیونکہ مذہب ہر کسی کے لیے ہے اور روحانیت ہر ایک کے لیے نہیں ہے اگر یہاں لوگ روحانی ہوجائیں تو ایک ہوجائیں گے۔


ذکر اللہ کیلئے ولی کی اجازت کیوں ضروری ہے؟[]

مذاہب کشتی کی مانند اور علماءملاح کی طرح ہوتے ہیں اگر کسی ایک میں بھی نقص ہوتو منزل پر پہچنا مشکل ہے البتہ اولیاءاللہ ٹوٹی پھوٹی کشتی کو بھی کنارے لگادیتے ہیں اللہ تعالیٰ کے ننانوے نام ہیں اللہ ذاتی ہے باقی تمام صفاتی ہیں ہراسم کسبی ہے لیکن اسم اللہ عطائی ہے یہ اپنی محنت سے کبھی بھی نہیں دل پر نہیں جمتا اسے دل پر جمانے کے لئے مرشد کامل کی مدد ضروری ہے رب کو دل میں اتارنے کیلئے تصور قلبی ذکر اور ولی اللہ ہوتے ہیں ہرمومن کا نصیبہ کسی نہ کسی ولی کے پاس ہوتا ہے۔ ولی کی ظاہر ی حیات شرط ہے دنیا میں کئی نبی اور ولی آئے تم بطور آزمائش باری باری دوران ذکر ان سب کا تصور کرو جس کے تصور سے ذکر میں تیزی اور ترقی نظر آئے تمہارا نصیبہ اسی کے پاس ہے پھر تصور کے لئے اسی کو چن لو اللہ تعالیٰ سورة کہف میں فرماتا ہے۔ اللہ انہیں کسی ولی مرشد سے ملادیتا ہے۔ اگر کوئی بھی تمہارے تصور میں آکر تمہاری مددنہ کرے تو پھر گوہرشاہی کو آزما کر دیکھو۔


دین الٰہی کیا ہے۔ کیا یہ کوئی دوسرا دین ہے؟[]

کتاب دین الٰہی اللہ کے متلاشیوں اور اللہ سے محبت کرنے والوں کیلئے ایک تحفہ ہے ۔ یہ کتاب ہر مذہب،ہرفرقے اور ہر آدمی کیلئے قابل غور ور قابل تحقیق ہے اور منکران روحانیت کیلئے ایک چیلنج ۔ اور رہا اللہ کے دین کا معاملہ توتمام آسمانی کتابیں اور صحیفے اللہ کا دین نہیں ہیں ان کتابوں میں نماز روزہ اور ڈاڑھیاں ہیں جبکہ اللہ اسکا پابند نہیں ہے یہ دین نبیوں کی امتوں کو منور اور پاک صاف کرنے کیلئے بنائے گئے جبکہ اللہ خود پاکیز ہ نور ہے۔ اللہ کا دین پیار و محبت ہے ننانوے ناموں کا ترجمہ ہے اپنے دوستوں کا ذکر کرنے والا ہے جن لوگوں کی منزل قلب سے روح کی طرف رواں دواں ہے وہی دین الٰہی میں پہنچ چکے یاپہنچنے والے ہیں انہیں کتابوں سے نہیں نور سے ہدائت ہے۔ جب کوئی انسان وصل کے بعد نور بن جاتا ہے تو پھر وہ بھی اللہ کے دین میں چلا جاتا ہے۔ اللہ خود عشق ،خود عاشق اور خود معشوق ہے، اگر کسی بندہ خدا کو بھی اس کی طرف سے ان میں سے ک ©چھ حصہ عطاءہوجائے توہ دین الٰہی میں پہنچ جاتا ہے پھر اس کی نماز دیدار الٰہی اور اس کا شوق ذکر خدا ہے زندگی کی تمام سنتوں فرضوں کا کفارہ بھی دیدار لٰہی ہے جن فرشتے اور انسانوں کی مشترکہ عبادت بھی اس کے درجے تک نہیں پہنچ سکتی۔ جس میں سب دریا ضم ہوجائیں وہ سمندر کہلاتا ہے اور جس میں سب دین ضم ہوکر ایک ھوجائیں وہی عشق الٰہی اور دین الٰہی ہے۔


اِس وقت بہت سے عالم، حافظ اور مبلغ دینِ اسلام کی تبلیغ کرتے ہیںجب قرآن ، نماز ، کلمہ، نبی اور کعبہ ایک ہے توپھر آپس میں اتنا تضاد کُفر تک کیوں ہے؟[]

دراصل تبلیغ اُس وقت صحیح اور جائز ہے جب تزکیہ نفس اور تصفیہ قلب کا عمل پورا ہوچکا ہو ، جیسا کہ ہندوستان میں داتا صاحب یا خواجہ صاحب کی تبلیغ تھی جنہوں نے کافروں کو مسلمان کیا ، بغیر تزکیہ اور تصفیہ کے خواہ کتنا ہی بڑا عالم کیوں نہ ہو اُس کی تبلیغ فتنہ ہے۔ جب خود کے اندر نفس کافر موجود ہے تو وہ دوسرے کافر کو مسلمان کیسے بنائے گا، البتہ مسلمانوں کو کافر کہہ کر ایک دوسرے کو آپس میں لڑا دے گا ۔ صحیح تبلیغ جو شریعت کے ذریعے جسم کی عبادت اور طہارت ہے اور باطن کی درستگی کے لئے طریقت کی پابندی ہے یعنی سینے کو بھی سلطانی اذکار کے ذریعے پاک کرنا ہوتا ہے۔

کیا مذہب اسلام میں رہبانیت کا کوئی تصور ہے؟[]

ہر مذہب نے رہبانیت اختیار کی حضور پاکﷺ بھی غارحرا میں جایا کرتے تھے غوث پاک رضی اللہ عنیہ،خواجہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ، داتا صاحب رحمتہ اللہ علیہ، بری امام سرکاررحمتہ اللہ علیہ، قلندر پاک رحمتہ اللہ علیہ سب نے رہبانیت کے بعد ہی اتنے بلند مقام حاصل کئے اور انہی کے ذریعے دین کی اشاعت ہوئی


آپ کی تعلیمات اور علماءدین کی تعلیمات میں اختلافات کے بارے میں کچھ فرمائیے؟[]

علماءدین ظاہر تعلیم پر توجہ دیتے ہیں جبکہ ہم ظاہری عبادت کے ساتھ ساتھ باطنی درستگی کی بھی بات کرتے ہیں دراصل شریعت اور طریقت ایک پرندے کے دوپروں کی مانند ہیں ان کا توازن بہت ضروری ہے ظاہر عبادت ایسی ہے جیسے سانپ سوراخ میں گھساہوا ہو اور باہر ڈنڈے مارے جارہے ہوں ظاہر ی عبادت و تلاوت یا ذکر لسانی والوں کا نفس مرتا نہیں ہے اور نہ ہی پاک ہوتا ہے البتہ سدھر ضرور جاتا ہے جب تک انسانی جسم میں نفس امارہ ہے کسی بھی پاک کلام کے انوار دل میں نہیں ٹہر سکتے بے شک وہ الفاظ و آیات کا حافظ ہی کیوں نہ بن جائے صرف صاف دل تجلیات الٰہی کے قابل ہوتا ہے کہتے ہیں جنت میں داخلے کیلئے کلمہ ضروری ہے بہشت میں ان جسموں کو نہیں روحوں کوجانا ہے جسم تو صرف مٹی کا مکان ہے اگر جنت حور وقصور کی آرزو ہے تو خوب عبادت کرتاکہ اونچی سے اونچی جنت مل سکے لیکن اگر تجھے اللہ کی تلاش ہے تو توروحانیت بھی سیکھ تاکہ تو صراط مستقیم پر گامزن ہوکر للہ کے وصال تک پہنچ سکے۔


مسلمانوں میں اتحاد کا فقدان ہے اسکی کیاوجہ ہے اور ہم کب ایک ہوں گے۔؟[]

کسی زمانے میں اہل کتاب ایک پلیٹ فارم پر جمع تھے اکٹھا کھانا پینا ایک دوسرے سے شادیوں کی اجازت لیکن کتاب تو زبان پر تھی عارضی تھی نکل گئی لیکن آج کے دور میں اہل ذکر ایک ہو جائیں گے جو کہ مستقل ہوں گے کیونکہ اللہ کا نام دل اور خون میں ہوگا یہی تفرقے کا سب سے بڑا علاج ہے کیونکہ جو محبت خون میں چلی جائے یا جس کی محبت دل میں اتر جائے اس کا نکلنا مشکل ہوتا ہے وہ مستقل ہوتی ہے اتحاد دلوں کے جڑنے میں ہے۔ اور جب دل جڑجائیں گے تو یہ خون خرابہ سب ختم ہوجائے گا۔ چہ مسلم چہ غیر مسلم اللہ کی محبت کی رسی میں یہ سب ایک لڑی میں پروئے ہوئے موتی بن جائیں گے۔

ذکر اللہ یا نماز! آپ کس عبادت پر زور دیتے ہیں؟[]

جس طرح گاڑی کا انجن اسٹیرنگ وٹائر وغیرہ کے بغیر منزل مقصود تک نہیں پہنچا جاسکتا اسی طرح نماز بھی تزکیہ نفس اور تصفیہ قلب کے بغیر ادھوری ہے ۔ زبان پر نماز لیکن دل میں خرافات ایسی نماز نماز صورت کہلاتی ہے۔ عبادت دل کو صاف کرنے کا ذریعہ ہے اگر عبادت سے دل صاف نہیں ہوا تواس کا مطلب ہے کہ تورب سے بہت دور ہے یقین کرو تمہیں بھی رب دیکھنا چاہتا ہے لیکن تم انجان لاپرواہ یابدبخت ہو جسے لوگ دیکھتے ہیں اسے روز صابن سے دھوتے ہو کریم لگاتے ہو خط بناتے ہو لیکن جسے رب دیکھتا ہے کیا تونے کبھی اسے بھی دھویا ہر چیز کو صاف کرنے کا کوئی نہ کوئی ذریعہ ہے جبکہ دلوں کی صفائی اللہ کے ذکر سے ہے۔ ذکر قلب ذکر روح کا وسیلہ ہے۔ جیسا کہ نماز روزہ ذکر قلب کا وسیلہ ہے۔ زبان سے ذکر وصلواة اللہ کی اطاعت اور فرمانبرداری کا ثبوت ہے جبکہ قلبیذکر اللہ کی محبت اور رابطے کا وسیلہ ہے اللہ کے نام کا قلبیذکر بھی ظاہری عبادت اور گناہوں کا کفارہ کرتا رہتا ہے اور کبھی نہ کبھی اسے اللہ کا محب اور روشن ضمیر بنا دیتا ہے۔ اور جب اللہ تعالیٰ کسی بند ے کی کسی بھی ادا سے مہربان ہوجاتا ہے تو اسے بڑے پیار سے دیکھتا ہے اور اس کا پیار سے د یکھنا ہی بندے کے گناہوں کو جلادیتا ہے حتی کہ اس کے پاس بیٹھنے والے بھی نظر رحمت کی لپیٹ میں آجاتے ہیں۔


آپ کی شخصیت اور تصانیف کو متنازع روپ میں کیوں پیش کیا جارہا ہے؟[]

ہمارا نہ تو سیاسی جماعت سے تعلق ہے اور نہ ہی ہم حکومتی کاموں میں مداخلت کرتے ہیں جوکچھ بھی کررہے ہیں رب کی رضا سے کررہے ہیں میں بارہایہ اعلان کرچکا ہوں کہ ملک دشمنی۔ اسلا دشمنی توہین رسالت یا منکر ختم نبوت کا اگر کوئی بھی ثبوت کسی کے پاس ہو تو بے شک مجھے زندہ جلادیا جائے۔ رہا کچھ عناصر کی مخالفت کا معابلہ تو روحانیت اور تصوف کے ‘مخالف فرقے اور تنگ نظر مولوی ولیوں سے بغض عناد اور دشمنی رکھتے ہیں ایسے ہی کچھ انتشار پسند اور حاسد قسم کے وہابی اور دیو بندی مولویوں نے ہمارے خلاف بے جا اخباری پروپگنڈہ شروع کررکھا ہے باوجود منہ کی کھانے کے وہ اللہ کی محبت کے اس عظیم مشن کو سبوتاژ کرنے کی ناکام کوشش کرتے رہتے ہیں ہماری تصنیف روحانی سفر میں زیادہ ترخواب مکاشفات اور الہامات ہیں جو دوران سلوک ہم پروارد ہوئے کسی بھی مکا شفے یا الہام کو حق الیقین نہیں کہا گیا ولیسے بھی خواب اور مکا شفے اگر غیر اخلاقی ہوں تو بھی ان پر شرعی قوانین لاگو نہیں ہوتے تاہم پھر بھی تحریروں کی بعض عبارات کے الفاظوں کو عام فہم بنا دیا گیا ہے گو کہ ان واقعات کے ثبوت ولیوں کی معتبر کتابوں میں موجود ہیں پھر بھی ان تمام اقدامات کے باوجود بعض حاسدی علماءبیان بازی کے شوق اور بغض گوہر شاہی میں عقائد اہل سنت اور تعلیمات اولیا ءعظام پر کیچڑ اچھالنے والوں کے الزامات کا نہ تو دفاع کررہے ہیں اور نہ ہی تردید انہوں نے مصلحتاً یا حسد کے باعث اس جانب چشم پوشی اختیار رکررکھی گے۔ اب رہا شبہات چاند سورج اور حجراسود کا مقابلہ تو یہ خالصتاً منجانب اللہ ہیں اور اللہ کی یہ نشانیاں فتنہ ڈالنے کیلئے نہیں فتنہ مٹانے کیلئے ہوتی ہیں اس کا واضح ثبوت گوہرشاہی کا امن اور اللہ کی محبت کادرس ہے ۔ جس کے ذریعے ہر مذہب کے پیروکار اپنی اصلاح کرنے میں لگ گئےہیں۔ آج ہندو مسلم سکھ عیسائی گوہرشاہی کی عقیدت کی وجہ سے ایک پلیٹ فارم پر جمع ہورہے ہیں وہ ہمیں اپنے گرجوں مندروں اور گردواروں میں تقریر ووعظ کیلئے مدعو کررہے ہیں تاریخ میں اس سے پہلے ایسی کوئی مثال نظر نہیں آتی۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ ایسے شخص کی دلجوئی کی جائے جو ملک و قوم کیلئے باعث فخر ہو جس کی صداقت پر گواہی کیلئے اللہ نشانیاں دکھا رہا ہو۔ لیکن اس کے برعکس دشمن اولیا اور دشمن اہلیت بالخصوص وہابی اور دیوبندی مولوی اور ان کی جماعتیں میرے خلاف سربستہ ہوگئیں ہیں وہ بے بنیاد مقدموں اور بے بنیاد پروپگنڈہ کے ذریعے عوام کا رخ اللہ کی ان نشانیوں سے ہٹانے کی کوشش کررہے ہیں۔ جب ان واضح تصویروں کو جھٹلانا مشکل ہوگیا تو انہوں نے واویلا مچانا شروع کردیا کہ چاند پر جادو ہوگیا ہے جبکہ حضورﷺ نےکہاتھا کہ چاند پر جادو نہیں ہو سکتا پھر کہتے ہیں کہ حجراسود بھی جادو کی لپیٹ میں آگیا ہے اگر کعبہ بھی جادو کی زد میں آگیا ہے تو پھر اہل مسلمانان کے پاس تحفظ کی کون سی جگہ ہے بےشک حضورﷺ پر جادو ہوگیا تھا لیکن اس کے توڑ کیلئے سورة والناس آگئی تھی انہیں چاہیے کہ وہ بھی والناس کے ذریعے چاند اور حجراسود پر پھونکیں ماریں اگر یہ تصویریں نہ مٹیں بلکہ پہلے سے بھی زیادہ روشن ہوجائیں تو انہیں حق تسلیم کرنا پڑے گا۔ ہم بارہا حکومتوں سے اپیل کرتے رہے ہیں کہ وہ ان نشانیوں کی تحقیقات کرے اور حقائق کو منظر عام پرلائے اور اگر علماءخود کو حق پر سمجھتے ہیں تو انہیں بھی چاہیے کہ وہ حکومت سے ان شبیہات کی تحقیقات کا بلا تامل مطالبہ کریں تاکہ عام آدمی بھی اللہ کی ان نشانیوں سے فیض یاب ہوسکے۔


علماءکی جانب سے اعلان نبوت کے بارے میں بہت منفی پروپگنڈہ کیا گیا ۔ اس کی حقیقت کیا ہے۔؟[]

میں کئی دفعہ یہ اعلان کرچکا ہوں کہ توہین رسالت یا منکر ختم نبوت کا اگر کوئی بھی ثبوت کسی کے پاس ہو تو بے شک مجھے زندہ جلادیا جائے ہماری نس نس اللہ اور رسولﷺ کے عشق میں تڑپتی ہے ملکی اخبارات اس بات کے گواہ ہیں کہ میں بارہا اس خبر کی تردید کرچکا ہوں لیکن ایک مخصوص ٹولہ اس خبر کو صرف اپنی شہرت کاذریعہ بنارہا ہے۔ ختم نبوت والے وہابی اور دیو بندی مولویوں اس کام میں پیش پیش ہیں وہ بذات خود اولیاءعظام کی تعلیمات کے مخالف ہیں اور جو لوگ اللہ اور خاتم النبینﷺ سے محبت کرنے والے ہیں ان کے خلاف جھوٹی رپورٹ درج کراتے ہیں یا ان پر جھوٹا بہتان لگاتے ہیں ۔ یہ وہی کاذب ہیں جن پر اللہ لعنت بھیجتا ہے

ختمِ نبوت کے بارے میں آپ کا کیا عقیدہ ہے؟[]

ہم ایک بار پھر واضح طور پر باور کراہے ہیں کہ ختمِ نبوت پر ہمارا کامل یقین ہے اور حضور پاک ﷺ کو آخری نبی نہ ماننے والا کافر و زندیق ہے،ہم نے کبھی نبوت کا دعویٰ نہیں کیا ، ہماری رگ رگ اللہ و رسول ﷺکے عشق میں تڑپتی ہے، اس ضمن میںدعویٰ نبوت کے تمام مقدمات و الزامات بے بنیا د اور جھوٹے ہیں اور صوفیوں کی تعلیمات کے مخالف فرقہ پرست مولویوں کی گھناونی سازش کا حصہ ہیںجو ہمارے مشن کو نقصان پہنچانے کے درپے ہیں لیکن مخالفین یاد رکھیں کہ وہ اپنی سازشوں کے ذریعے گوہر شاہی کو جھکا نہیں سکتے۔


ایک تاثر یہ پایا جاتا ہے کہ حجرِ اسود، چاند ، سورج، مریخ،،خلائ،اور نبیولا سیارے میں آپ کی شبہیات نمودار ہونے کے دعویٰ ، مہدیت کی راہ ہموار کرنے کا حصہ ہیں؟[]

ہم نے مہدیت کا دعویٰ نہیں کیا، یہ مخالفین کا پروپیگنڈہ ہے البتہ ہم نے یہ ضرور کہا ہے کہ حضرت امام مہدیؑ کی پشت مبارک پر مہرِ مہدیت ہوگی جس طرح حضور پاکﷺ کے پشتِ مبارک پر مہرِ نبوت تھی،مہرِ مہدیت نسوں سے اُبھری ہوئی ہوگی اور اس کے ساتھ کلمہ شریف بھی موجود ہوگا، اسی بناءپر مہرِ مہدیت کا مصنوعی ہونا نا ممکن امر ہے،جبکہ امام مہدیؑ کا ساتھ وہ لوگ دیں گے جن کے دلوں میں نورہوگا۔ جہاں تک حجرِ اسود ،سورج،مریخ اور قدرت کی دیگر نشانیوں میں ہماری شبہیات نمودار ہونے کا معاملہ ہے، ہمیں نہیں معلوم یہ کیوں نمودار ہورہی ہیں، لیکن ٹھوس سائنسی شواہد اور جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے اصل حقائق تک بآسانی رسائی حاصل کی جاسکتی ہیں، جبکہ اس سلسلے میں امریکی خلائی ادارے ناسا سمیت دنیا کے دیگرخلائی تحقیقی ادارے اس بارے میں پہلے ہی اپنی ریسرچ مکمل کرچکے ہیں، تاہم محض ایک مسلمان اور ایشیائی ہونے کی بناءپر حقیقت کا اعتراف کرنے سے گریزاں ہیں،جبکہ ہم حکومتِ پاکستان سے کئی مرتبہ اپیل کرچکے ہیں ہیں وہ قدرت کی ان نشانیوں کے حوالے سے عام شخص تک حقائق پہنچانے میں ہماری مدرکرے، اس ضمن میں ایک اعلیٰ سطحی بورڈ تشکیل دیا جائے ،جس میں منصف مزاج کے حامل دانشوروں، سائنسدانوں،صحافیوں،اور صوفیاءکرام کی تعلیمات سے محبت رکھنے والے علماءبا عمل سمیت زندگی کے مختلف شعبہءہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے چیدہ چیدہ افراد کو شامل کیا جائے جو اپنی تحقیقات کی روشنی میں اس حساس معاملے کی تمام جزئیات اور پس منظر سے عوام کو آگاہ کریں۔

آپ کوئی پیغام دینا چاہیں گے؟[]

یہ راز چھپا کرکریں گے کیا ، اب تو دنیا فانی ہے

انتظار تھا جس قیامت کا ، عنقریب آنی ہے

دجال و رجال پیدا ہو چکے یہ بھی رازِ سلطانی ہے

ظاہر ہونے والا ہے مہدی بھی ، یہی رازِ سلطانی ہے

Advertisement