Scratchpad
Register
Advertisement

===حضرت سیدنا ریاض احمد گوہر شاہی مدظلہ العالی کا تعارف===

Rags

ریاض احمد نام اور گوہر شاہی کنیت ہے آپ کے جد اعلیٰ حضرت بابا سید گوہر علی شاہ جو ایک کامل بزرگ گزرے ہیں ان کی نسبت سے گوہر شاہی رکھا گیا اس طرح آپ کا پورا نام ریاض احمد گوہر شاہی ہے۔ آپ25نومبر 1941 کو برصغیر پاک ہند کے ایک چھوٹے سے گاؤں ڈھوک گوہر شاہ تحصیل گوجر خان ضلع راولپنڈی میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد کانام حضرت الحاج فضل حسین قادری اور والدہ کانام دولت بی بی ہے۔

خاندانی پس منظر حضرت بابا گوہر شاہ سے تعلق[]

آپ کے جد اعلیٰ سید گوہر شاہ سادات بخاری ہیں جو کشمیر سری نگر میں رہتے تھے ایک دفعہ کچھ غنڈوں نے ایک مسلمان لڑکی کو اغوا کرلیا آپ نے تلوار اٹھائی اور سات غنڈوں کو جہنم واصل کردیا۔ انگریز حکومت نے آپ کو گرفتار کرنا چاہا تو آپ وطن چھوڑ کر راولپنڈی تشریف لے آئے کچھ عرصہ نالہ لئی کے پاس بیٹھے رہے جب یہاں بھی پولیس کا خطرہ ہوا تو آپ تحصیل گوجر خان کے ایک جنگل میں بیٹھ گئے اور ریاضت و عبادت شروع کردی۔ کئی سال بعد آپ سے فیض جاری ہوگیا۔ اس جنگل کا رقبہ جوکہ گوجر برادری کے پاس تھا انہوں نے آپ کو وقف کردیا۔ جواب ڈھوک گوہر شاہی کے نام سے منسوب ہے۔ آپ نے کشمیری مغل خاندان میں شادی کی بیٹے اور بیٹیاں ہوئیں اور یوں پانچویں پشت میں آپ کے والد الحاج فضل حسین قادری نواسوں اور والدہ ماجدہ دولت بی بی کا تعلق آپ کے پوتوں سے ہے حضرت ریاض احمد گوہر شاہی کے دادا مغلیہ خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔

حضرت بابا گوہر علی شاہ آخری ایام میں کسی ناراضگی کے سبب بکرا منڈی راولپنڈی میں گوشہ نشین ہوگئے اور وہیں آپ کا وصال ہوگیا جہاں اب بھی دربار بنا ہواہے۔ کہتے ہیں کہ جہاں آپ کا دربار بنا ہوا ہے آپ کی گدڑی اور عصا مدفن ہے جبکہ جسم اطہر کو آپ کے آبائی گاؤں ڈھوک گوہر شاہ لایا گیا اس لئے وہاں بھی آپ کا دربار مرجع خلائق ہے چونکہ آپنے (بکرامنڈی راولپنڈی) کافی عرصہ ریاضت و عبادت میں گزارا اس لئے آپ کا فیض بکر امنڈی کے دربار میں ہے جبکہ ڈھوک گوہر شاہ (تحصیل گوجر خان ضلع راولپنڈی) میں بھی آپ کے دربار سے فیض جاری ہے۔


بچپن[]

بچپن ہی سے آپ کارخ اولیاءکرام کے درباروں کی طرف تھا۔ آپ جو بات کہتے وہ پوری ہوجاتی۔ آپ کے والد الحاج فضل حسین قادری فرماتے ہیں کہ گوہر شاہی پانچ یا چھ سال کی عمر سے ہی غائب ہوجاتے ہم جب انہیں ڈھونڈتے نکلتے تو ان کو حضرت نظام الدین اولیاء(دہلی) کے مزار پربیٹھا ہوا یا سرہانے کی طرف سویا ہوا پاتے۔مجھے کئی مرتبہ ایسا محسوس ہوا جیسے گوہر شاہی حضرت نظام الدین اولیاء سے باتیں کررہے ہیں( یہ اس وقت کا واقعہ ہے جب آپ کے والد الحاج فضل حسین قادری ملازمت کے سلسلے میں دہلی میں مقیم تھے)۔آپ کی والدہ ماجدہ دولت بی بی فرماتی ہیں شکم مادر سے پیدائش‘ پیدائش سے لڑکپن لڑکپن سے بچپن‘ بچپن سے جوانی‘ حتیٰ کہ تاحال ریاض احمد گوہر شاہی سے مجھے کوئی تکلیف نہیں ہوئی۔ابھی شیر خوار تھے میں گھر کے کام کاج میں اکثر دودھ پلانا بھول جاتی لیکن اس قدر صابر تھے کہ کبھی بھوک میں بھی روکر اپنی طرف مجھے متوجہ نہ کیا۔ جہاں سلاتی سوجاتے ہمیشہ مسکراتے رہتے تھے آپ فرماتی ہیں بچپن میں اگر کبھی اسکول نہ جاتے تو نارضگی کا اظہار کرتی برابھلا کہتی لیکن وہ اف تک نہ کرتے۔ میرے بزرگ لکہ میاں ڈھوک شمس والے کہا کرتے تھے کہ ریاض کو برا بھلا نہ کہا کر جو کچھ میں اس میں دیکھتا ہوں تمہیں خبر نہیں آپ فرماتی ہیں انسانی ہمدردری اس قدر کہ اگر اسے پتہ چل جائے کہ گاؤں سے آٹھ دس میل کے فاصلے پر کوئی بس خراب ہوگئی ہے تو ان لوگوں کے لئے کھانا بنواکر سائیکل پر انہیں دینے جاتا۔

ابتدائی تعلیم[]

قرآن پاک کی تعلیم گاؤں میں ابتدائی تعلیم قریب ہی گاؤں موہڑہ نوری میں قائم پرائمری اسکول میں حاصل کی بعد میں مڈل ہائی ایف اے اور بعد میں پولی ٹیکنک ڈپلومہ بھی حاصل کیاپرائمری اسکول کے ماسٹر امیر حسین کہتے ہیں ” میں علاقے میں بہت سخت استاد مشہور تھا۔ شرارتی بچوں کو سزا دینا ان کی (حضرت گوہر شاہی) شرارت یہ تھی کہ اسکول دیر سے آتے۔ جب میں غصہ میں انہیں سزا کے طور پر مارنے لگتا تومجھے محسوس ہوتا جیسے کسی نے میرا ڈنڈا پکڑ لیا ہو۔ اس طرح مجھے ہنسی آجاتی۔ آپ کی برادری اور دوستوں کا کہنا ہے کہ ہم نے کبھی انہیں (حضرت گوہر شاہی) لڑتے جھگڑتے یا مارتے پیٹتے ہوئے نہیں دیکھا۔ بلکہ اگر کوئی دوست غصہ کرتایا انہیں( حضرت گوہر شاہی) مارنے کے لئے آتا تو یہ ہنس پڑتے۔


جوانی کے حوالے سے[]

یہ ان دنوں کی بات ہے جب حضرت سیدنا ریاض گوہر شاہی آٹھویں جماعت میں تھے آپ کی ممانی (زاہدہ وپارسا عبادت گزار خاتون کے ساتھ ساتھ حرص و حسد میں بھی مبتلا تھیں جو کہ اکثر عبادت گزاروں میں ہوجاتاہے) نے کہا ”تجھ میں اور تو سب ٹھیک ہے لیکن تو نماز نہیں پڑھتا۔ حضرت گوہر شاہی نے برجستہ جواب دیا نماز رب کا تحفہ ہے میں نہیں چاہتا کہ نماز کے ساتھ بخل ‘تکبر‘ حسد‘ کینہ کی ملا وٹ رب کے پاس بھیجوں جب کبھی بھی نماز پڑھوں گا تو صحیح نماز پڑھوں گا تم لوگوں کی طرح نہیں کہ نماز بھی پڑھتے ہو اور غیبت ‘ چغلی ‘ بہتان طرازی جیسے کبیرہ گناہ بھی کرتے ہو۔“

حضرت گوہر شاہی خود فرماتے ہیں کہ ”میں دس بارہ سال کی عمر سے ہی خواب میں رب سے باتیں کرنا اور بیت المامور مجھے نظر آتاتھا۔لیکن مجھے اس کی حقیقت کا علم نہ تھا۔ چلہ کشی کے بعد جب وہی باتیں اور وہی مناظر سامنے آئے تو حقیقت آشکار ہوئی۔“ آپ اپنے رشتے کے ماموں کے حوالے سے بیان کرتے ہیں کہ” وہ غلط کاریوں کا مرتکب تھا اور بعد میں مجھے بھی ملوث کرنا چاہتا تھا کہ سوتے میں میں دیکھتاہوں کہ ایک بڑا گول چبوترا ہے اور میں اس کے نیچے کھڑا ہوں اوپر سے ایک کرخت قسم کی آواز آتی ہے۔اسکو لاؤ دیکھتا ہوں کہ ماموں کو دو آدمی پکڑ کر لارہے ہیں اور اشارہ کرتے ہیں کہ یہ ہے وہ پتھر آواز آتی ہے اس کو گرزوں سے مارو تب اس کو مارتے ہیں تو وہ چیختا اور دھاڑیں مارتا ہے چیختے چیختے اس کی شکل سور کی ہوجاتی ہے پھر آواز آتی ہے تو بھی اس کے ساتھ اگر شامل ہوا تو تیرا بھی یہی حال ہوگا۔ پھر میں توبہ توبہ کرتاہوں اور آنکھ کھلتی ہے تو زباں پر یہی ہوتا ہے کہ یارب میری توبہ یارب میری توبہ اور کئی سال تک اس خواب کا اثر رہا۔ اس کے دوسرے دن میں گاؤں کی طرف جارہا تھا۔ بس میں سوار تھا۔ کہ راستے میں دیکھا کچھ ڈاکو ایک ٹیکسی سے ٹیپ ریکارڈ نکال رہے ہیں ڈرائیور نے مزاحمت کی تو اس پر چھریوں سے وارکرکے قتل کردیا۔یہ منظر دیکھ کر ہماری بس وہاں رک گئی اور وہ ڈاکو ہمیں دیکھ کر فرارہوگئے اور ڈرائیور نے تڑپ تڑپ کر ہمارے سامنے جان دیدی۔ پھر ذہن میں یہی آیا کہ زندگی کا کیا بھروسہ! رات کو سونے لگا تو اندر سے یہ شعر گونجنا شروع ہوگیا۔

کر ساری خطائیں معاف میری تیرے درپہ میں آن گرا

ساری رات گریہ زاری میں گزری اس واقعہ کے کچھ عرصہ بعد 19سال کی عمر میں جسئہ توفیق الٰہی ساتھ لگادیا جو ایک سال رہا اس کے اثر سے کپڑے پھاڑ صرف ایک دھوتی میں جام داتار کے جنگل اور پھر دربار واقع نواب شاہ سندھ چلا گیا لیکن وہاں سے بھی منزل نہ ملی میرا بہنوئی مجھے وہاں سے واپس دنیا میں لے آیا۔

آپ فرماتے ہیں ”26سال کی عمر سے ہی پیروں فقیروں سے روحانیت کی تلاش میں نکلا۔لیکن کہیں سے بھی دل کو تسکین نہ ہوئی آخر پیروں فقیروں سے بیزار اور مزارات سے مایوس ہوکر دنیاوی کاروبار میں لگ گیا۔“ لاتعداد کاروباری تجربات کئے اور آخر راولپنڈی میں FQاسٹیل انڈسٹریز رجسٹرڈ قائم کی جہاں سوئی گیس کے چولھے اور بجلی کا سامان بنتا تھا۔ کاروبار کے بعد شادی کرلی شادی کے بعد تین بچے غیاب الدین بابر طلعت محمود اور مجیب عالم پیداہوئے۔ مجیب عالم ڈیڑھ سال کی عمر میں اللہ کو پیارے ہوگئے۔ اس وقت میں لال باغ سہون شریف چلہ میں تھے کاروبار میں خاطر خواہ نتائج سامنے نہ آئے بلکہ مسلسل خسارہ ہونے لگا۔25سال کی عمر میں جسہ گوہر شاہی کو باطنی لشکر کے سالار کی حیثیت سے نوازا گیا جس کی وجہ سے ابلیسی لشکر اور دنیاوی شیطانوں کے شرسے محفوظ رہے۔ جسہ توفیق الٰہی اور طفل نوری‘ ارواح‘ ملائکہ اور لطائف سے بھی افضل و اعلیٰ مخلوقیں ہیں ان کا تعلق بھی ملائکہ کی طرح براہ راست رب سے ہے اور ان کا مقام ” احدیت ہے۔


حصول روحانیت کے حوالے سے[]

1975جب آپ کی عمر34سال ہوئی تو حضرت شاہ عبداللطیف بری امام رحمتہ اللہ علیہ (جن کا مزار اقدس اسلام آباد میں ہے) سامنے آئے اور کہا بیٹا اب تیرا وقت ہے دوبارہ جنگل جانے کا علوم باطن کے لئے حضرت سخی سلطان باہو رحمتہ اللہ علیہ(شور کوٹ ضلع جھنگ) کے دربار پر چلا جا آپ کے حکم کی تعمیل میں کاروبار بیوی بچے اور ماںباپ چھوڑ کر شور کوٹ چلے آئے۔ حضرت سخی سلطان باہو رحمتہ اللہ علیہ کی نظر کرم سے آپ کی تصنیف” نور الہدیٰ“ آپ کی منزل کا ساتھی بن گئی۔

14سال بعد ”جسہ توفیق الٰہی“ ہی دوبارہ سہون کے جنگل میں لانے کا سبب بنا اور پھر اپ مجاہدہ نفس اور سکون قلب کے لئے سہون تشریف لے آئے۔ تین سال سہون کی پہاڑیوں اور لعل باغ میں چلہ کشی کی مجاہدہ کیا۔اللہ کو پانے کے لئے اس کے عشق کے لئے دنیا چھوڑی۔35سال کی عمر میں15رمضان المبارک1976کو ایک لطیفہ نور قلب میں داخل کیا گیا کچھ عرصہ بعد تعلیم و تربیت کے لئے کئی مختلف مقامات پر بلایا گیا۔15رمضان 1977کو اللہ کی طرف سے خاص الہامات کا سلسلہ شروع ہوا راضیہ مرضیہ کا وعدہ ہوا اور مرتبہ ارشاد حاصل ہوا۔1978باطنی حکم کے تحت جام شورو سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ کے عقب میں چھہ ماہ تک جھونپڑی ڈالے بیٹھے رہے یہیں آپ نے قبر کھود کر دعوت تکسیر پڑھی اور کامیابی حاصل کی آخر کار منشا ایزدی کے تحت مخلوق خدا کو فیض ہونا شروع ہوگیا۔

1978کے وسط ہی میں پہلے گوہر منزل سرے گھاٹ حیدرآباد میں مقیم ہوئے یہاں پر ہی راقم الحروف وصی محمد قریشی‘ محمد عارف میمن‘ سلطان جاوید‘ ڈاکٹرعبدالقیوم و دیگر چند اور احباب بھی آپ کے حلقہ ارادت میں شامل ہوئے ایک روز آپ دوبارہ حضرت جام داتار کی دربار واقع نواب شاہ پہنچے تو صاحب مزار سامنے آگئے آپ فرماتے ہیں میں نے کہا اس وقت اگر مجھے قبول کرلیا جاتا تو بیچ میں نفسانی زندگی سے محفوظ رہتاانہوں نے جواب دیا اس وقت تمہارا وقت نہیں تھا۔ گوہر منزل سرے گھاٹ حیدرآباد پر دعوت تبلیغ اور لاعلاج مریضوں کی شفایابی کا سلسلہ شروع ہوگیا تو روز بروز حلقہ ارادت بڑھنے لگا۔ آپ کی زوجہ محترمہ بیگم امینہ ریاض صاحبہ عرصہ چلہ کشی کی بابت فرماتی ہیں کہ ”جب آپ بغیر بتائے گھر سے چلے گئے۔گھر والوں نے بڑاہی تلاش کیا اورکوئی سراغ نہیں ملا تو سوچا کہیں کسی حادثہ کا شکار تو نہیں ہوگئے اور اسی صبر میں وقت گزرنے لگا۔ فاتحہ درود ہونے لگی۔ برادری کے لوگوں میں بھانت بھانت کی باتیں ہونے لگی۔ لیکن مجھے کامل یقین تھا کہ جہاں کہیں بھی ہیں خیر و عافیت سے ہیں۔ اکثر خواب میں تسلی دی جاتی اور دل گواہی دیتا کہ ایک نہ ایک دن وہ ہم سے ضرور ملیں گے اسی آس میں بچوں کے ساتھ زندگی گزارتی رہی آخر وہ دن بھی آن پہنچا اور اطلاع ملی کہ آپ(ریاض احمد گوہر شاہی) خیر و عافیت سے گوہر منزل حیدرآباد میں قیام پذیر ہیں یہ خبر سن کر خوشی کی انتہا نہ رہی اور میں آپ کے بہنوئی جو اس وقت نواب شاہ کے مضافات میں مقیم تھے بچوں سمیت پہنچ گئی۔“ بچوں کے پہنچنے کی اطلاع بذریعہ خط آپ کے بہنوئی نے گوہر منزل سرے گھاٹ حیدرآباد دی جہاں آپ مقیم تھے بچوں کے آنے کی اطلاع پہنچی تو آپ کچھ پریشان ہوئے لیکن ا س وقت کے ارادت مندوں کے اصرار پر آپ بچوں سے ملاقات کی غرض سے آپ کے بہنوئی کے گھر نواب شاہ پہنچ گئے اس وقت کیا منظر ہوگا تحریر قاصر ہے۔ لیکن جب وہ واپس حیدرآباد آنے لگے تو بیوی بچے بھی ساتھ ہولئے اب وہ کس طرح اکیلا جانے دے سکتے تھے اگلے روز بیوی بچے بھی گوہر منزل سرے گھاٹ حیدرآباد پہنچ گئے۔ سال 1978 رمضان المبارک میں آپ کے ارادت مندوں نے آپ کو بچوں سمیت گوہر منزل سرے گھاٹ حیدرآباد سے ڈاکٹر عبدالقیوم کی رہائش گاہ 88-A بریلی کالونی لطیف آباد نمبر11حیدرآباد منتقل کردیا۔ اور یہیں محفل درود شریف کی ساتھ ساتھ لا علاج مریضوں کا علاج‘ ذکر الٰہی کی دعوت تبلیغ کا کام بھی شروع ہوگیا۔

آپ کی تصانیف[]

عالمی روحانی تحریک انجمن سرفروشان ِ اسلام کے سرپرست و بانی حضورسیدناریاض احمدگوھرشاہی مدظلہ العالیٰ نے طالبین ِ حق کے لءے ،راہ ِ سلوک کے منازل کی نشاندہی فرماءی اوراپنی تصانیف کے ذریعے علم ِ روحانیت کے اسرارورموزسے عوام الناس کو آگاہ کیا۔آپ کی بیش قدرتصانیف میںمندرجہ ذیل کتابیںشامل ہیں۔

Menar-e-noor

مینارہ نور

Tohfatulmajales

تحفۃ المجالس

Roshnas

روشناس

Rohanisafar

روحانی سفر

Titleu

دین ِ الٰہی

مینارہءنور، تحفۃ المجالس، روشناس، تریاقِ قلب، روحانی سفراور دینِ الٰہی سرکارسیدناریاض احمدگوھرشاہی مدظلہ العالیٰ کی وہ معرکۃ الآراء کتابیںہیںکہ جن سے لاکھوںروحانیت اورراہ ِ ہدایت کے متلاشی لوگوںنے اپنے من کی پیاس بُجھاءی۔

بیرونی روابط[]

Advertisement